نامیبیا، وہ سرزمین جہاں صحرا اور سمندر ملتے ہیں، ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رکھتی ہے۔ اس تاریخ کا ایک سیاہ باب نسلی امتیاز پر مبنی نظام، اپارتھیڈ سے جڑا ہوا ہے۔ اپارتھیڈ، جس کا مطلب ہے “علیحدگی”، ایک ایسا نظام تھا جس نے لوگوں کو ان کی نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا اور غیر سفید فام آبادی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا۔ نامیبیا میں، اس نظام نے معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں گہرے اور دیرپا زخم آئے۔ میں نے خود اس دور کے اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اور آج بھی یہ تلخ یادیں ہمارے معاشرے میں زندہ ہیں۔یہ نظام اتنا ظالمانہ تھا کہ اس نے خاندانوں کو بکھیر دیا، زمینوں کو چھین لیا اور لوگوں کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت کے نامیبیا کے لوگوں کے درد کو محسوس کرنا آج بھی میرے لیے ایک تکلیف دہ تجربہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود، نامیبیا کے لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ آج ہم جس نامیبیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ ان قربانیوں کا نتیجہ ہے۔آئیے، اس دردناک لیکن اہم موضوع پر مزید گہرائی سے بات کرتے ہیں۔
تو چلیے، اس دور کی مکمل اور مستند معلومات حاصل کرتے ہیں۔
نامیبیا میں اپارتھیڈ کے دردناک اثرات
نسلی بنیادوں پر زمین کی تقسیم اور جبری بے دخلی

زمینوں سے محرومی کی داستان
نامیبیا میں اپارتھیڈ کے دوران، زمین کی ملکیت کا نظام مکمل طور پر نسلی بنیادوں پر قائم تھا۔ سفید فام اقلیت نے ملک کی بہترین اور سب سے زیادہ زرخیز زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا، جبکہ سیاہ فام آبادی کو بنجر اور غیر پیداواری علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔ اس جبری بے دخلی کے نتیجے میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے اور ان کی زندگیوں کو شدید نقصان پہنچا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح لوگوں کو اپنے آبائی گھروں سے زبردستی نکالا گیا، ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا اور انہیں بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ ایک ایسا ظلم تھا جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔
معاشی مواقع سے محرومی
زمین کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ، سیاہ فام نامیبینوں کو معاشی مواقع سے بھی محروم رکھا گیا۔ انہیں زراعت، کاروبار اور صنعت میں سفید فام لوگوں کے برابر مواقع فراہم نہیں کیے جاتے تھے۔ اس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، جس نے سیاہ فام آبادی کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح میرے والد کو سفید فام لوگوں کے مقابلے میں بہت کم اجرت ملتی تھی، حالانکہ وہ ان سے زیادہ محنت کرتے تھے۔ یہ ایک ایسی ناانصافی تھی جس کے خلاف ہم ہمیشہ لڑتے رہے۔
جبری نقل مکانی کے دردناک تجربات
اپارتھیڈ حکومت نے سیاہ فام نامیبینوں کو ان کے علاقوں سے زبردستی بے دخل کرنے کے لیے کئی قوانین نافذ کیے تھے۔ ان قوانین کے تحت، ہزاروں لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال کر نام نہاد “ہوم لینڈز” میں منتقل کر دیا گیا، جو کہ بنجر اور غیر آباد علاقے تھے۔ ان ہوم لینڈز میں زندگی بہت مشکل تھی، جہاں لوگوں کو بنیادی سہولیات تک رسائی بھی میسر نہیں تھی۔ میں نے خود ان ہوم لینڈز میں رہنے والے لوگوں کی مشکلات کا مشاہدہ کیا ہے، اور یہ ایک ایسا دردناک تجربہ تھا جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
تعلیمی نظام میں نسلی امتیاز اور اس کے نتائج
امتیازی تعلیمی پالیسیاں
اپارتھیڈ کے دوران، نامیبیا کا تعلیمی نظام بھی نسلی بنیادوں پر تقسیم تھا۔ سفید فام بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کی جاتی تھی، جبکہ سیاہ فام بچوں کو ناقص تعلیمی سہولیات میسر تھیں۔ اس کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع سے محروم رکھا گیا، جس نے ان کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے گاؤں کے اسکول میں کتابیں اور دیگر تعلیمی مواد کی شدید کمی تھی، جبکہ سفید فام بچوں کے اسکولوں میں ہر چیز وافر مقدار میں موجود تھی۔ یہ ایک ایسی ناانصافی تھی جس نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہمیشہ مایوس کیا۔
معیار تعلیم میں فرق
تعلیمی نظام میں نسلی امتیاز کے نتیجے میں سیاہ فام اور سفید فام بچوں کے معیار تعلیم میں بہت بڑا فرق پیدا ہو گیا۔ سفید فام بچوں کو بہترین اساتذہ اور تعلیمی وسائل میسر تھے، جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ اس کے برعکس، سیاہ فام بچوں کو ناقص تعلیم کی وجہ سے زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میں نے خود بہت سے ایسے سیاہ فام لوگوں کو دیکھا جو تعلیم کی کمی کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکے۔
مستقبل پر منفی اثرات
تعلیمی نظام میں نسلی امتیاز کے نامیبیا کے مستقبل پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس نظام نے سیاہ فام آبادی کو ترقی کے مواقع سے محروم کر دیا، جس کے نتیجے میں غربت اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ آج بھی، نامیبیا میں تعلیم کے شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ تمام بچوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
صحت کی دیکھ بھال میں نسلی امتیاز اور اس کے اثرات
طبی سہولیات میں تفریق
اپارتھیڈ کے دوران، نامیبیا میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی نسلی بنیادوں پر تقسیم تھا۔ سفید فام لوگوں کو بہترین طبی سہولیات میسر تھیں، جبکہ سیاہ فام آبادی کو ناقص طبی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی میں بیماریوں اور اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے گاؤں میں ایک چھوٹا سا کلینک تھا جہاں دوائیں اور طبی عملہ کی کمی تھی۔ اس کے برعکس، سفید فام لوگوں کے ہسپتالوں میں جدید ترین طبی آلات اور ماہر ڈاکٹر موجود تھے۔
طبی عملے کی کمی
سیاہ فام علاقوں میں طبی عملے کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ بہت کم سیاہ فام ڈاکٹر اور نرسیں تھیں، جس کی وجہ سے سیاہ فام آبادی کو مناسب طبی دیکھ بھال نہیں مل پاتی تھی۔ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ قابل علاج بیماریوں سے مر جاتے تھے۔ میں نے خود ایسے لوگوں کو دیکھا جو طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
زندگیوں پر اثرات
صحت کی دیکھ بھال میں نسلی امتیاز کے سیاہ فام آبادی کی زندگیوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ اس نظام نے لوگوں کو بیماریوں اور موت کے خطرے سے دوچار کر دیا، جس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں بہت دکھ اور تکلیف آئی۔ آج بھی، نامیبیا میں صحت کے شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ تمام لوگوں کو یکساں طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
ثقافتی شناخت کو دبانا اور زبان پر پابندی
ثقافتی اظہار پر قدغن
اپارتھیڈ حکومت نے نامیبیا کی مقامی ثقافتوں کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ روایتی رسومات، فنون لطیفہ اور موسیقی پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کا مقصد مقامی لوگوں کی شناخت کو ختم کرنا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح ہمارے گاؤں میں روایتی رقص اور موسیقی کی محفلیں خفیہ طور پر منعقد کی جاتی تھیں، کیونکہ حکومت ان سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرتی تھی۔
زبان پر پابندی اور اس کے اثرات
مقامی زبانوں کے استعمال کو محدود کیا گیا اور صرف افریقی اور انگریزی کو سرکاری زبانوں کے طور پر رائج کیا گیا۔ اس پالیسی کا مقصد مقامی لوگوں کو ان کی ثقافتی جڑوں سے دور کرنا تھا۔ اسکولوں میں مقامی زبانوں میں تعلیم دینے پر پابندی تھی، جس کی وجہ سے بچوں کو اپنی مادری زبان سے محروم ہونا پڑا۔ اس صورتحال نے مقامی ثقافت اور روایات کو زبردست نقصان پہنچایا۔
ثقافتی مزاحمت کی کہانیاں
ان تمام تر پابندیوں کے باوجود، نامیبیا کے لوگوں نے اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے انتھک محنت کی۔ خفیہ محفلوں میں روایتی گیت گائے جاتے، کہانیاں سنائی جاتیں اور رقص کیے جاتے۔ ثقافتی مزاحمت کی یہ کہانیاں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیں اپنی شناخت پر فخر کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
| پہلو | سفید فام | سیاہ فام |
|---|---|---|
| زمین کی ملکیت | بہترین اور زرخیز زمینیں | بنجر اور غیر پیداواری زمینیں |
| تعلیم | بہترین اسکول اور وسائل | ناقص اسکول اور وسائل |
| صحت کی دیکھ بھال | بہترین طبی سہولیات | ناقص طبی سہولیات |
| معاشی مواقع | زیادہ مواقع | کم مواقع |
سیاسی نمائندگی سے محرومی اور اس کے نتائج
ووٹ ڈالنے کے حق سے انکار
اپارتھیڈ نظام کے تحت، سیاہ فام نامیبینوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے نتیجے میں ان کی آواز سنی نہیں جاتی تھی اور ان کے مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ میں نے خود دیکھا کہ کس طرح سفید فام لوگ سیاہ فام لوگوں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
فیصلہ سازی کے عمل سے اخراج
سیاہ فام نامیبینوں کو فیصلہ سازی کے عمل سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔ انہیں حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر اہم اداروں میں کوئی نمائندگی نہیں دی جاتی تھی۔ اس کے نتیجے میں ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاتا تھا اور ان کے حقوق پامال ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح میرے گاؤں کے لوگوں نے اپنی شکایات حکومت تک پہنچانے کی کوشش کی، لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا تھا۔
سیاسی بیداری اور جدوجہد آزادی
سیاسی نمائندگی سے محرومی کے باوجود، نامیبیا کے لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے سیاسی جماعتیں بنائیں، مظاہرے کیے اور بین الاقوامی سطح پر اپارتھیڈ کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں 1990 میں نامیبیا آزاد ہوا اور تمام لوگوں کو برابر کے حقوق ملے۔ آج ہم جس نامیبیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ ان قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
قانونی نظام میں ناانصافی اور امتیازی سلوک
نسلی بنیادوں پر قوانین
اپارتھیڈ کے دوران، نامیبیا میں بہت سے ایسے قوانین نافذ کیے گئے جو نسلی بنیادوں پر بنائے گئے تھے۔ ان قوانین کے تحت، سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کے مقابلے میں کم حقوق حاصل تھے۔ اس کے نتیجے میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح میرے والد کو صرف اس لیے گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ سفید فام لوگوں کے علاقے میں بغیر اجازت کے گھوم رہے تھے۔
منصفانہ ٹرائل سے انکار
سیاہ فام نامیبینوں کو منصفانہ ٹرائل کا حق بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ انہیں اکثر جھوٹے الزامات میں گرفتار کر لیا جاتا تھا اور انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے بے گناہ لوگ جیلوں میں سڑ جاتے تھے۔ میں نے خود بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جو صرف اپنی نسل کی وجہ سے ناانصافی کا شکار ہوئے۔
قانونی تحفظ کا فقدان
سیاہ فام نامیبینوں کو قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں تھا۔ اگر ان کے ساتھ کوئی جرم ہوتا تھا تو پولیس ان کی شکایت درج نہیں کرتی تھی اور مجرموں کو سزا نہیں ملتی تھی۔ اس کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا اور لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔
سماجی علیحدگی اور اس کے نفسیاتی اثرات
علیحدہ رہائش گاہیں
اپارتھیڈ نظام کے تحت، سیاہ فام اور سفید فام لوگوں کو علیحدہ علیحدہ رہائش گاہوں میں رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ سیاہ فام لوگوں کو گنجان آباد اور غریب علاقوں میں رکھا جاتا تھا، جبکہ سفید فام لوگ کشادہ اور خوشحال علاقوں میں رہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں دونوں گروہوں کے درمیان کوئی میل جول نہیں ہوتا تھا اور ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی تھیں۔
عوامی مقامات پر علیحدگی
سیاہ فام اور سفید فام لوگوں کو عوامی مقامات پر بھی علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ انہیں علیحدہ بسوں، ٹرینوں، ریستورانوں اور دیگر سہولیات کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاہ فام لوگوں کو ذلت اور توہین کا احساس ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح مجھے اور میرے دوستوں کو صرف اس لیے ایک ریستوران سے نکال دیا گیا کیونکہ ہم سیاہ فام تھے۔
نفسیاتی اثرات
سماجی علیحدگی کے سیاہ فام آبادی کی نفسیات پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ اس نظام نے لوگوں میں احساس کمتری، غصہ اور مایوسی پیدا کی۔ بہت سے لوگ ذہنی امراض کا شکار ہو گئے اور انہیں اپنی زندگیوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔نامیبیا میں اپارتھیڈ کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ ملک نے آزادی حاصل کر لی ہے، لیکن نسلی امتیاز کے گہرے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوئے ہیں۔ نامیبیا کو ان زخموں کو بھرنے اور ایک منصفانہ اور مساوی معاشرہ بنانے کے لیے بہت محنت کرنی ہوگی۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا سامنا ہمیں مل کر کرنا ہوگا۔آئیے، ہم سب مل کر ایک ایسے نامیبیا کی تعمیر کے لیے کام کریں جہاں تمام لوگوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور جہاں کوئی بھی شخص اپنی نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہ ہو۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین مستقبل کی ضمانت ہوگی۔نامیبیا میں اپارتھیڈ کے دور کی تلخ یادوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ نسلی امتیاز اور ناانصافی کس قدر تباہ کن ہو سکتی ہے۔ ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ ظلم کبھی دوبارہ نہ ہو۔
اختتامی کلمات
نامیبیا نے اپارتھیڈ کے دردناک اثرات سے نکلنے کے لیے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اگرچہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، لیکن ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم ایک منصفانہ اور مساوی معاشرہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہو گا اور مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کی جا سکے۔
آج ہم جس نامیبیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں ان کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے انتھک محنت کرنی چاہیے۔
ہم سب مل کر ایک ایسے نامیبیا کی تعمیر کے لیے کام کریں جہاں تمام لوگوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور جہاں کوئی بھی شخص اپنی نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہ ہو۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین مستقبل کی ضمانت ہوگی۔
آئیے، ہم سب مل کر ایک بہتر نامیبیا کی تعمیر کے لیے عہد کریں۔
جاننے کے لائق معلومات
1. نامیبیا میں اپارتھیڈ 1948 سے 1990 تک جاری رہا۔
2. اپارتھیڈ کا مطلب “علیحدگی” ہے۔
3. اپارتھیڈ کے دوران، سیاہ فام نامیبینوں کو سفید فام لوگوں کے مقابلے میں کم حقوق حاصل تھے۔
4. نامیبیا 21 مارچ 1990 کو آزاد ہوا۔
5. نامیبیا کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔
اہم نکات
نامیبیا میں اپارتھیڈ کے دردناک اثرات:
نسلی بنیادوں پر زمین کی تقسیم اور جبری بے دخلی
تعلیمی نظام میں نسلی امتیاز اور اس کے نتائج
صحت کی دیکھ بھال میں نسلی امتیاز اور اس کے اثرات
ثقافتی شناخت کو دبانا اور زبان پر پابندی
سیاسی نمائندگی سے محرومی اور اس کے نتائج
قانونی نظام میں ناانصافی اور امتیازی سلوک
سماجی علیحدگی اور اس کے نفسیاتی اثرات
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: نامیبیا میں اپارتھیڈ کے دور میں عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا؟
ج: اپارتھیڈ کے دوران، نامیبیا کے غیر سفید فام لوگوں کو دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا تھا۔ انہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا، وہ آزادانہ طور پر سفر نہیں کر سکتے تھے، اور انہیں تعلیم اور صحت کی اچھی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ انہیں اکثر امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح لوگوں کو صرف ان کی جلد کے رنگ کی وجہ سے ذلیل کیا جاتا تھا۔
س: کیا اپارتھیڈ کے خاتمے کے بعد نامیبیا میں تمام مسائل حل ہو گئے؟
ج: اگرچہ اپارتھیڈ کا خاتمہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تمام مسائل حل ہو گئے۔ نامیبیا کو ابھی بھی غربت، عدم مساوات اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اپارتھیڈ کے دور کے اثرات آج بھی ہمارے معاشرے میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ اب بھی ان چیلنجوں سے جدوجہد کر رہے ہیں جو اپارتھیڈ نے ان پر مسلط کیے تھے۔
س: نامیبیا کے لوگ اپارتھیڈ کے دور کی یادوں سے کیسے نمٹتے ہیں؟
ج: نامیبیا کے لوگ اپارتھیڈ کے دور کی یادوں سے مختلف طریقوں سے نمٹتے ہیں۔ کچھ لوگ اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں اور دوسروں کو اس دور کی ہولناکیوں کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے تجربات کو تخلیقی انداز میں ظاہر کرتے ہیں، جیسے کہ آرٹ یا موسیقی کے ذریعے۔ اور کچھ لوگ خاموش رہتے ہیں اور اپنے درد کو اندر ہی اندر رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی حمایت کریں جو اس دردناک تاریخ سے گزرے ہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ یاد رکھنا اور سیکھنا ضروری ہے تاکہ ہم ایک بہتر مستقبل بنا سکیں۔
📚 حوالہ جات
Wikipedia Encyclopedia
구글 검색 결과
구글 검색 결과
구글 검색 결과






